Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

دیہاتی نے خریدیں صحرا نشین سے تین نصیحتیں

ماہنامہ عبقری - جون 2015

دیہاتی نے حیران ہوکر پوچھا: آپ نصیحتیں بیچتے ہیں؟ ایک نصیحت کتنے کی؟ بوڑھا بولا: ہر نصیحت ایک اونٹ کی۔دیہاتی نے بوڑھے کی بات پر سر جھکا کر کچھ دیر کیلئے سوچا اور پھر ایک ۔۔نصیحت کی غیرمعمولی قیمت پر غور کیا۔ مگر آخرکار اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ ایک نصیحت ضرور خریدے گا

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دیہاتی پر زندگی کی راہیں تنگ ودشوار ہوگئیں تو اس نے اپنا گاؤں چھوڑ کر دور دراز علاقے میں جانے کا فیصلہ کرلیا کہ شاید اسے دیار غیر میں رزق ملے۔ چنانچہ اس نے اپنا گھر بار چھوڑا‘ اپنی بیوی کو چھوڑا اور اپنے گاؤں سے نکل کھڑا ہوا‘ اس کا رخ ایک بہت ہی دور کے شہر کی طرف تھا۔ وہ خشک بنجر اور ہر طرح کی نباتات سے خالی صحرا میں چلتا رہا‘ بالآخر وہ مطلوبہ شہر میں جاپہنچا۔وہاں اس نے اس شہر کے ایک امیرکبیر آدمی سے ملاقات کی‘ اسے اپنی بپتا سنائی اور اپنے مالی بحران کی شکایت کی۔ مالدار آدمی نے اس کا خیرمقدم کیا اور اس کی خوب آؤبھگت کی۔ جب دیہاتی مالدار کے پاس تین دن گزار چکا تو امیرکبیر شخص نے اسے پیش کش کی کہ وہ اس کے یہاں کام کرے۔ دن کے وقت وہ اس کے اونٹ اور مویشی چرائے اور رات کے وقت اس کے مہمانوں کی خدمت بجالائے۔ اس کے صلے میں اسے اونٹوں اور بھیڑ بکریوں میں سے حصہ ملے گا۔ دیہاتی نے پیش کش قبول کرلی اور اس کے پاس کام شروع کردیا۔اس کام کاج میں پندرہ برس بیت گئے۔ اب دیہاتی کو اپنا گھر بار یاد آیا‘ بیوی‘ رشتے داروں اور گاؤں کی یاد نے اسے خوب ستایا۔ اس نے مالدار آدمی کو اپنا حال سنایا اور بتایا کہ وہ واپس اپنے گاؤں جانا چاہتا ہے کیونکہ گاؤں والے اسے بہت یاد آرہے ہیں اور اب زیادہ جدائی برداشت کرنا اس کیلئے مشکل ہے۔ مالدار آدمی کو یہ سن کر دکھ ہوا کیونکہ یہ ایک مخلص، سچا اور امانت دار ملازم تھا۔ اس نے دیہاتی کو اپنےپاس روک رکھنا بھی مناسب نہ سمجھا، اسے نہ صرف واپس گاؤں جانے کی اجازت دی بلکہ اسے کئی اونٹ اور بہت سی بھیڑ بکریاں بھی دیں پھر اسے الوداع کیا اور اس کیلئے خیروعافیت سے اپنے گھر پہنچنے کی تمنا ظاہر کی۔دیہاتی نے کوچ کیا‘ وہ ایک لمبے صحرا میں سے گزرا‘ صحرا میں ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد اس نے صحرا میں ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک مرد بزرگ ‘عمر رسیدہ اپنے خالی خیمے میں بیٹھا ہے، یہ خیمہ اسے دھوپ اور حرارت سے بچاتا ہے، چنانچہ دیہاتی نے اس بوڑھے آدمی کو سلام کیا۔ بوڑھے نے اس کے سلام کا جواب دیا اور اسے اپنے خیمے میں آرام کرنے کی دعوت دی۔ دیہاتی نے اس کی یہ پیشکش قبول کرلی۔ بوڑھے نے اسے کھجوریں پانی اور قہوہ پیش کیا۔ دیہاتی نے بوڑھے سے اس کے کام کاج کی بابت دریافت کیا بوڑھے نے اسے بتایا کہ وہ تجارت و سوداگری کرتا ہے۔ یہ سن کر دیہاتی بولا: آپ کس چیز کی تجارت کرتے ہیں؟ اور آپ کا سامان کہاں ہے؟ بوڑھے نے جواب دیا: ’’میں نصیحتیں فروخت کرتا ہوں‘‘ دیہاتی نے حیران ہوکر پوچھا: آپ نصیحتیں بیچتے ہیں؟ ایک نصیحت کتنے کی؟ بوڑھا بولا: ہر نصیحت ایک اونٹ کی۔دیہاتی نے بوڑھے کی بات پر سر جھکا کر کچھ دیر کیلئے سوچا اور پھر ایک نصیحت کی غیرمعمولی قیمت پر غور کیا۔ مگر آخرکار اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ ایک نصیحت ضرور خریدے گا خواہ اسے اس کی کتنی ہی قیمت دینا پڑے چنانچہ اس نے بوڑھے سے کہا: آپ مجھے نصیحت کیجئے میں آپ کو ایک اونٹ دوں گا۔ اس پر مرد بزرگ نے کہا ’’جب سہیل ستارہ طلوع ہوتو سیلاب سے بے فکر نہ ہونا‘‘
دیہاتی نے اس نصیحت کو سنا اور اس پر خوب سوچ بچار کیا، پھر اپنے دل میں بولا: اس خوفناک صحرا میں سہیل ستارے کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اور اس وقت یہ نصیحت مجھے کیا فائدہ دے گا؟ ایک لمبی سوچ کے بعد اس نے اپنے آپ سے کہا: یہ نصیحت تو میرے لیے بے فائدہ ہے‘ میں دوسری نصیحت خریدتا ہوں شاید کہ پہلے نقصان کی کچھ تلافی ہوجائے۔ پہلی نصیحت تو فضول ہے‘ مجھے اس کے بدلے ایک اونٹ سے محروم ہونا پڑا ہے۔ دیہاتی نے بڈھے سے دوسری نصیحت کی درخواست کی تو مرد جہاں دیدہ نے اسے یہ نصیحت کی۔ اس آدمی پر کبھی اعتماد نہ کرنا جس کی آنکھیں چمکیلی ہوں اور دانتوں کے درمیان خلا ہو۔اب دیہاتی نے اس دوسری نصیحت پر غورو فکر کیا تو اسے اس میں بھی کوئی فائدہ نظر نہ آیا۔ اس نے بوڑھے سے کہا: اب مجھے تیسری نصیحت کیجئے میں آپ کو تیسرا اونٹ دیتا ہوں، بوڑھے نے اسے یہ نصیحت کی پچھتا کر سوجانا مگر خون کرکے نہ سونا۔ دیہاتی کے خیال میں اگر یہ تیسری نصیحت پہلی دو نصیحتوں کی طرح بے کار تھی مگر اس نے تیسرا اونٹ بھی دے دیا اور بوڑھے سے اجازت لے کر اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔ اس کے اونٹ بھیڑ بکریاں بھی اس کے ساتھ تھیں۔ اس کا رخ اپنے گاؤں کی طرف تھا۔دیہاتی کئی دنوں تک صحرا میں چلتا رہا۔ اسے سخت مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا‘ تھکاوٹ ہوئی‘ صحرا کی گرمی نے اسے اس قدر بے حال کردیا کہ وہ مرد بزرگ کی تینوں نصیحتوں کو بھول گیا اور اسے یہ یاد بھی نہ رہا کہ اس نے کسی سے اتنی زیادہ مہنگی نصیحتیں خریدی ہیں۔ آخر ایک رات دیہاتی صحرا میں خیمہ زن لوگوں کے پاس جا پہنچا۔ ان لوگوں نے ایک وادی کےنشیب میں اپنے خیمے گاڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے دیہاتی کا احترام کیا اور اس کی مہمان نوازی کی، اسے کھانا کھلایا اور اس کے چوپاؤں کیلئے گھاس پیش کیا۔ اس نے یہ رات ان کے پاس گزاری جب وہ ابھی جاگ رہا تھا اور آسمان پر اس کی نگاہیں ستاروں کا مشاہدہ کررہی تھیں تو اسے اچانک سہیل ستارہ دکھائی دیا۔ وہ گھبرا کر اٹھا، لوگوں کوجگایا اور انہیں مرد بزرگ کی نصیحت سے آگاہ کیا۔ اس نے ان سے درخواست کی کہ وہ لوگ اس وادی کے نشیب سے باہر نکل جائیں اور وادی کے پاس پہاڑوں پر چڑھ جائیں مگر لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا، اسے بے عقل وناسمجھ قرار دیا اور اس کی بات کو لچر کہا۔ اس پر دیہاتی نے انہیں مطلع کیا۔ اللہ کی قسم میں نے یہ نصیحت ایک اونٹ دے کر خریدی ہے‘ لہٰذا میں اس وادی کے نشیب میں ہرگز نہیں سوؤں گاپھر اس نے اپنے اونٹ اور بھیڑ بکریاں لیے اور پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہیں رات گزاری۔اس رات کے آخری حصے میں زور سے بہنے والا سیلاب اچانک آگیا، اس نے خیموں اور لوگوں کو غرق کردیا اور کوئی چیز بھی باقی نہ رہنےدی۔ ادھر دیہاتی یہ منظر دیکھ کر حیران ہوا اور اس بوڑھے کی نصیحت کی اہمیت و قیمت کا احساس ہوا۔ دیہاتی نے اپنے اونٹ اور بھیڑبکریوں یا ریوڑ اپنے ساتھ لیا اور اپنے علاقے کی طرف چل پڑا۔
راستے میں اسے دور سے روشنی دکھائی دی‘ رات سخت تاریک تھی‘ دیہاتی نے اس روشنی کو صحرا کی تاریک رات میں غنیمت سمجھا اور روشنی کی طرف چل پڑا۔ جب دیہاتی روشنی کی جگہ پہنچا تو دیکھا کہ ایک دبلا پتلا آدمی ہے‘ بہت زیادہ پھرتیلا ہے ایک وسیع وعریض گھر میں رہ رہا ہے۔ اس آدمی نے دیہاتی کے خیرمقدم میں مبالغہ کیا تو اس کی یہ حرکت دیہاتی کے دل میں مشکوک ٹھہری اس نے جب دبلے پتلے آدمی کا چہرہ غور سے دیکھا تو اس پر یہ حقیقت کھلی کہ اس کی آنکھیں چمکیلی ہیں اور اس کے دانتوں کے درمیان خلا ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے دل میں کہا: مرد بزرگ نے مجھے اسی آدمی سے خبردار کیا تھا۔ اس میں ساری نشانیاں پائی جاتی ہیں کوئی ایک نشانی بھی کم نہیں۔دیہاتی نے دبلے آدمی کے گھر میں سونے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں گھر سے باہر اپنے اونٹوں اور ریوڑ کے پاس سونا چاہتا ہوں۔ اس نے تکیہ اور چادر لی اور زمین پر لیٹ گیا مگر اسے خطرے کے پیش نظر بالکل نیند نہ آئی‘ اسے اپنے میزبان سےخطرہ محسوس ہورہا تھا وہ اپنے میزبان کی طرف سے ہر دم چوکنا اور چوکس تھا۔ رات کے وقت دیہاتی اٹھا‘ اس نے اپنے تکیہ کے پاس پتھر رکھ دئیے اور ان پر چادر ڈال دی تاکہ مشکوک میزبان اسے سوتا ہوا خیال کرے اور خود اٹھ کر دور کھڑا ہوگیا۔ ادھر میزبان گھر سے باہر آیا‘ اپنے پنجوں کے
بل آہستگی سے چلا، اس کے ہاتھ میں تلوار تھی، پھر اس نے دیہاتی کے بستر پر دیہاتی کو سویا سمجھ کر تلوار کا وار کردیا مگر اس کی تلوار پتھروں پر لگی، ادھر دیہاتی نے پھرتی سے میزبان کو پیچھے سے پکڑلیا اور اس کی تلوار چھین لی اور اس سے کہا: اللہ کی قسم! میں نے یہ نصیحت بہت مہنگی خریدی ہے‘ میں نے ایک اونٹ دے کر یہ نصیحت خریدی ہے۔ اب اس نے اپنے اونٹ اور ریوڑ لیے اور گاؤں کی جانب گامزن ہوا۔کئی دنوں اور راتوں کے طویل سفر کے بعد بالآخر دیہاتی اپنے گاؤں پہنچ گیا۔ وہ رات کے وقت گاؤں پہنچا ‘اس نے گھر کی دیوار سے اندر جھانکا تو دیکھا کہ اس کی بیوی نیند کرہی ہے اور اس کے ساتھ والے بستر پر ایک بھرپور کڑیل جوان محو خواب ہے نوجوان کے سر کے بال لمبے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر اسے سخت غصہ آیا اس کی غیرت نے جوش مارا اور اس نے مضبوطی سے ہاتھ میں تلوار پکڑلی۔ اس نے ارادہ کرلیا کہ وہ اپنی بیوی کو اور اس کے پاس محو خواب نوجوان کو مار ڈالے مگر جلد ہی اسے مرد بزرگ کی تیسری نصیحت یاد آگئی‘ نصیحت یہ تھی: پچھتا کر سوجانا مگر خون کرکے نہ سونا۔ اس کے ساتھ ہی وہ پرسکون ہوگیا اس نے اپنے آپ پر قابو پالیا اور اپنے ارادہ سے باز آیا۔ وہ گھر سے پیچھے ہٹا اور گاؤں سے باہر نکل کر اپنے اونٹوں اوربھیڑ بکریوں کے پاس سوگیا۔صبح ہوئی تو اس نے نماز فجر ادا کی، اب گاؤں کے لوگوں کو اس کی آمد کا علم ہوا، لوگ اس کے پاس گئے، سلام کیا‘ اس کا خیرمقدم کیا۔ پھر وہ اسے وہ اہم واقعات بتانے لگے جو اس کی گاؤں سے طویل غیرحاضری کے بعد رونما ہوئے تھے۔ دیہاتیوں نے اسے باتوں باتوں کے دوران یہ بھی بتایا کہ جب وہ گاؤں چھوڑ کر گیا تھا اس وقت اس کی بیوی امید سے تھی اس کے جانے کے کئی ماہ بعد اس کے گھر میں بیٹا پیدا ہوا، جو اب ایک کڑیل جوان ہے اور اپنی ماں کی خوب خدمت کررہا ہے۔اب دیہاتی پر یہ راز منکشف ہوا کہ رات کی تاریکی میں اس نے اپنے گھر کے صحن میں جسے غیر سمجھا تھا وہ اس کا اپنا بیٹا تھا۔ اس پر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا پھر بیٹے کی ولادت اور اس کے جوان ہونے پر اظہار مسرت کیا۔ اب اس نے اپنے دل میں سوچا: یہ نصیحت کتنی عظیم ترین تھی۔ اگرچہ ہر نصیحت ہی اپنی جگہ انتہائی قیمتی تھی، ہرنصیحت اونٹ سے بھی زیادہ گراں قیمت تھی حتیٰ کہ اگر ہر نصیحت کے بدلے میں اونٹ پر سونا لاد کر معاوضہ بھی دیا جائے تو بھی سودا مہنگا نہیں۔
یہ کہانی!!! اس کے کردار اور اس میں بیان کردہ واقعات نصیحت کی قدرو قیمت کو اچھی طرح اجاگر کرتے ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو یہ تربیت دیں کہ وہ اپنے ماں باپ اور استاد کی نصیحتیں غور سے سنیں، وہ اپنے بڑوں، سمجھداروں اور دانشوروں کی باتیں اورنصیحتیں غورو فکر سے سنیں۔ ان نصیحتوں کے معانی و مطالب پر غور کریں اور ان نصیحتوں پر عمل کریں۔ نصیحت کی اہمیت:اگر کسی سے کہا جائے کہ وہ دین اسلام کا لب لباب ایک جملے میں بیان کرے تو وہ کیا کہے گا۔ ہوسکتا ہے کہ اس سوال کا جواب دینے کیلئے کوئی بہت سوچے اور پھر بھی مقصد کو بیان کرنے سے قاصر رہے۔ مگرنبی اکرم ﷺ کو تو ’’جوامع الکلم‘‘ عنایت ہوئے ہیں اس لیے آپ ﷺ نے دین کا خلاصہ ایک جملے میں یوں بیان فرمادیا ہے: ’’دین نصیحت کرنے کا نام ہے‘‘ آپ ﷺ نے یہ الفاظ تین بار ارشاد فرمائے۔ حضرت تیمیم اوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ جب ’’آپ ﷺ نے تین بار الدین النصیحۃ دین خیرخواہی کا نام ہے‘‘ فرمایا۔ تو ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! کس کیلئے خیرخواہی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کیلئے، اس کی کتاب کیلئے اس کے رسول ﷺ کیلئے، مسلمان حکمرانوں اور مسلم عوام کیلئے۔‘‘ (مسلم)صحیحین میں جریر سے روایت ہے۔ کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی نماز قائم کرنے پر، زکوٰۃ دینے پر اور ہر مسلمان کیلئے نصیحت (خیرخواہ) کرنے پر‘‘نصیحت کے آداب:جسے نصیحت کی جارہی ہو اسے نرمی و لطف سے سمجھایا جائے، سختی اور تشدد کے بغیر پہلو یہ کہ نصیحت سری ہو، جبری نہ ہو، یعنی علانیہ نہ کی جائے بلکہ تنہائی میں آہستگی سے کی جائے۔ خبردار! آپ کبھی بھی برسرعام نصیحت نہ کریں، کیونکہ علانیہ نصیحت کرنےسے منصوح (جسے نصیحت کی جارہی ہے) بدلے گا اور حق کی پیروی سے دور ہوجائے گا اور آپ کی یہ نصیحت اسے ذلیل اور رسوا کردے گا۔ عربی زبان کی کہاوت ہے: النصیحۃ علی الملاء فصیحۃ، برسرعام نصیحت رسوائی ہے۔ برسرعام نصیحت دشمنی اور بے تعلقی تک لے جاتی ہے۔ ہمارے سلف صالحین جب کسی کو نصیحت کرنا چاہتے تو اسے تنہائی میں نصیحت کیا کرتے تھے۔ ہمارے کسی بزرگ کا قول ہے: جس نے کسی کو تنہائی میں سمجھایا تو وہ نصیحت ہے اور جس نے کسی کو برسرعام سمجھایا تو اس نے اس کو ڈانٹ ڈپٹ کی۔فضیل بن عیاض فرماتے ہیں: مومن پردہ پوشی کرتا ہے اور نصیحت کرتا ہے جب کہ فاجرو نافرمان بے عزتی کرتا اور پردہ دری کرتا ہے۔ ہماری امت کو اس وقت اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ امت کے بچوں کو فاضل باپ اور بچیوں کو فاضل ماں نصیحتیں کیا کریں۔ یہ باپ اور مائیں تربیت کرنے والے
ہوں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اس دور میں بہت سے باپ اور مائیں مال اور روزگار میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کےپاس اپنے بچوں کی تربیت کرنے اور انہیں نصیحت کرنے کا وقت ہی نہیں اور جن والدین کے پاس وقت ہے وہ اپنے اوقات عزیز کو اپنے بچوں کیلئے استعمال کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی نیتیں درست ہیں ان کے ارادے مستقیم ہیں اور وہ اپنے بچوں کو وقت بھی دینا چاہتے ہیں مگر وہ تربیت کے فنون اور اس کی مہارتوں سے ناواقف ہیں۔یادرہے کہ نصیحت کرنا ایک فن ہے اور نصیحت کرنے کو تربیت کے اہم ترین اسلوبوں میں شمار کیا جاتا ہے اگر نصیحت کو تربیتی ضابطوں کے مطابق کیا جائے تو وہ ضرور پھل لاتی ہے۔ اگر ایک طرف ہمیں حکم ہے کہ ہم مسلم عوام کیلئے خیرخواہی کرتے ہوئے انہیں نصیحت کریں تو دوسری طرف ہمارے لیے یہ حکم ہے کہ ہم اپنے بچوں کیلئے خاص طور پر نصیحت کریں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر وہ بندہ جسے اللہ نے رعایا پر حکمران بنایا ہو پھر وہ اپنی رعایا کی خیرخواہی کرتے ہوئے اسے نصیحت نہ کرے وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔ (بخاری) بلاشبہ ہمارے بچے اور بچیاں ہمارے گھروں میں ہماری رعایا ہیں۔ لہٰذا وہ نصیحتوں اور ہماری رہنمائی کے محتاج ہیں۔ غذا سے بھی کہیں بڑھ کر۔ وہ ہمارا انتظار کرتے ہیں اس لیے کہ ہم اپنے ہاتھوں میں غذا اٹھائے ان کو صرف خوراک دیں ان کے پیٹوں کیلئے بلکہ وہ ہمارا اس لیے انتظار کرتے ہیں کہ ہم ان کی خاطر اپنے دلوں میں جس قدر محبت رکھتے ہیں ان پرنچھاور کریں۔ ہمارا حال یہ ہو کہ ہمارے دماغوں میں علم، معرفت ہو اور ہماری زبانوں پر نصیحت اوررہنمائی ہو۔اے اپنے بچے کے مہربان باپ، شفیق والد، آپ کومعلوم ہونا چاہیے کہ آپ کے بچے کے کان‘ خاص طور پر بچپن میں آپ کی جانب سے محبت بھرا بول سننے کیلئے ہروقت منتظر رہتے ہیں۔ ایک شفیق باپ کی طرف سے ایک نصیحت اس کی اولاد کو بہت زیادہ محبوب ہوتی ہے اور اس کے اثرات کسی اور شخص کی جانب سے کی گئی سو نصیحتوں کے اثرات سے بھی زیادہ ہوا کرتے ہیں۔ کیونکہ باپ کی بات شفقت پدری کے سوتے سے پھوٹتی ہے اور اس کی مہربانی کی حرارت اپنے دامن میں لیے ہوتی ہے اور اس طرح اے مادر مہربان! آپ کی اپنے بیٹے کیلئے نصیحت میں شفقت مادری اور وقت ونرمی پوشیدہ ہوا کرتی ہے جو انتہائی مؤثر ہوتی ہے۔بچوں کو نصیحت کرنے کے طریقے:ماہرین تربیت کی 

رائے میں، والدین کی طرف سے بچوں کیلئے تین طریقوں سے مؤثر و فعال نصیحت کی جاسکتی ہے۔ یہ طریقے درج ذیل ہیں۔کہانی کے ذریعے نصیحت:چھوٹوں اور بڑوں کے دلوں پر کہانی کا مؤثر تربیتی اثر پڑتا ہے، کیونکہ کہانی، سماعتوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے اور نفوس وقلوب میں اعلیٰ اخلاقی قدروں کی کاشت و آب یاری کرتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ قرآن کریم میں بکثرت واقعات بیان کیے گئے ہیں اور پھر قرآن حکیم میں ایک مکمل سورۂ کا نام ہے ’’سورۂ قصص‘‘(قصوں والی سورت) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قصہ یا کہانی کے تربیتی مفہوم اور لب لباب کو ان الفاظ میںپیش فرمایا ہے۔ ’’اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کیلئے عبرت ہے۔ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جارہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق کی ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کیلئے ہدایت و رحمت‘‘ (یوسف:111) احادیث نبویہ ﷺ میں بھی بہت سے قصے بیان ہوئے ہیں۔ یہ قصے صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین اور تمام مسلمانوں کی تربیت کیلئے استعمال ہوئے ہیں۔ اس طرح انبیاء علیہم السلام، مرسلین اور صالحین کےبارے میں آپ ﷺ نے کئی واقعات بیان فرمائے ہیں جسے گنجے، کوڑھی اور اندھے کی کہانی، گڑھے والوں کی کہانی، عبادت گزار جریج کی کہانی، ان تین آدمیوں کی کہانی جنہوں نے غار میں پناہ لی اور اس غار کے منہ پر چٹان گری۔ یہ سب کہانیاں آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کی تربیت و تادیب کیلئے بیان فرمائی ہیں۔ اگرچہ قرآنی کہانیاں ہی سب کہانیوں سے افضل و برتر ہیں۔ قرآنی کہانیوں کے بعد رسول اللہ ﷺ کے بیان کردہ قصے ہیں۔ بہرحال کہانی کا عام طور پراثر بہت گہرا اثر ہوتا ہے، خواہ یہ قرآنی قصے ہوں یا نبویﷺ یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قصے ہوں یا نیک لوگوں کی کہانیاں ہوں یازندگی کے حقیقی واقعات ہوں۔مکالمہ کے ذریعے نصیحت:اس کا طریقہ یہ ہے کہ باپ اپنے بچوں کےپاس بیٹھے، وہ ان سے سوالات کرے اور بچے جواب دیں یا بچے اپنے والد سے مختلف سوالات کریں کئی باتیں پوچھیں اور باپ ان کا جواب دے۔ یہی طریقہ ماں اپنائے کہ وہ بچے سے پوچھے اور بچہ جواب دے یا بچہ ماں سےپوچھے اور ماں جواب دے۔براہ راست خطاب کے ذریعے:اس کا طریق کار یہ ہے کہ بچوں کو براہ راست سمجھایا جائے ان کی رہنمائی کی جائے انہیں کوئی حکم دیا جائے یا انہیں کسی کام سے روکا جائے۔ یا امرونہی دونوں بیک وقت براہ راست کیے جائیں۔ اس براہ راست خطاب کے ذریعے نصیحت کی عمدہ مثال حضرت لقمان کی نصیحتیں ہیں جو آپ نے اپنے بیٹے کو کیں۔(بشکریہ! ماہنامہ خطیب)

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 753 reviews.